جے آئی ٹی رپورٹ، سیاسی زلزلے اور ایم کیو ایم


جے آئی ٹی کی رپورٹ کیا آئی، گندی سیاست کے بدبودار تالاب میں بھونچال سا آ گیا۔ عمران خان اور الطاف حسین ایک دوسرے پر لفظوں کی گولہ باری شروع کر چکے ہیں۔ زرداری اور ہمنوا بھی عنقریب کوئی قوالی شروع کرنے والے ہیں۔ بات بڑھ سکتی ہے۔ اندرون سندھ تک بھی جا سکتی ہے۔ سائیں قائم علی شاہ کی حکومت کے جوڑ بھی ہل سکتے ہیں۔ زرداری جی اگر دم بخود ہیں تو بڑے میاں جی پریشان۔ میاں جی کو یاد ہے کہ جب جب کراچی کا توازن بگڑتا ہے، ان کی محبوب کرسی کے پائے ہلنے اور کھسکنے لگتے ہیں۔ عام آدمی یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہوا جاتا ہے کہ ایم کیو ایم کی قیادت نے کیوں اتنی جلدی اپنی تشریف گرم گرم توے پر رکھ د ی ہے۔

جدے اور دبئی میں دی جانے والی قیمتی قربانیوں کے طفیل، آج پاکستان ایک جمہوری ملک ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت چاروں کونوں میں جمہور کا راج جاری ہے۔ جمہور کے راج کو یقینی بنانے کے لیے بہت سے سیاسی جماعتیں بھی پائی جاتی ہیں۔ ہر جماعت اپنی اپنی رائے رکھتی ہے۔  حسنِ اتفاق یہ ہے کہ سبھی پارٹیاں صرف ایک نکتے پر سو فیصد اتفاق کرتی ہیں۔ سب کا ماننا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستانی سیاست کی معصومہ بی بی ہے۔ ایم کیو ایم صرف محبت اور پیار کی سیاست کرتی ہے۔ اس جماعت کی جنگ اگر ہے تو صرف زمینداروںسے، وڈیروں سے، سرمایہ داروں سے اور صنعت کاروں سے۔ ایم کیو ایم مگر محبت فاتح عالم کے فلسفے کی قائل ہے۔ اگر یہ وڈیرے اور صنعت کار کسی بھی طرح سے ووٹ لے کر اسمبلی آ جائیں، تو ایم کیو ایم ایک بچھڑی ہوئی بے باک محبوبہ کی طرح سرِ عام ان کے گلے لگ جاتی ہے۔ کسی شاعر نے کہا تھا

ان سے ضرور ملنا، بڑے سلیقے کے لوگ ہیں
سر بھی قلم کریں گے مگر احترام کے ساتھ

تاہم یہ وضاحت از حد ضروری ہے کہ جو لوگ سر کٹی لاشیں بوری میں بند کر کے پھینک جاتے ہیں ان کا ایم کیو ایم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ لہٰذا، مشتری ہوشیار باش۔ پولیس اور خفیہ والے بطور خاص نوٹ فرما لیں۔

الطاف بھائی اس وقت ایم کیو ایم کے اکلوتے سربراہ ہیں۔ آپ ایک سچے پاکستانی ہیں۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کے مسائل جاننے کے لیے آپ برطانیہ آئَے۔ سیاسی پناہ حاصل کی۔ مزدوری کر کے اور پائی پائی جوڑ کر اپنا گھر بنایا۔ اس کے بعد پاکستانیوں کی خدمت میں مصروف ہو گئے۔ ان دنوں آپ ڈاکٹر عمران فاروق کے قاتلوں کو پکڑنے میں لندن پولیس کی مدد کر رہے ہیں۔ برطانوی حکومت آپ کی دیانت، صداقت اور امانت کی سب سے بڑی قدر دان ہے۔ برطانوی حکومت نے عاجزانہ انداز میں آپ سے برطانوی شہریت قبول کرنے کی استدعا کی۔ الطاف بھائی نے صرف ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کی خاطر اس گذارش کو قبولیت بخشی۔ لندن پولیس، تو جناب کو اپنا استاد مانتی ہے۔ آپ انتہائی عاجزانہ طبیعت کے مالک ہیں، لہٰذا تھانے جا جا کر ان کی مدد فرماتے ہیں اور بیش بہا مشوروں سے نوازتے ہیں۔ اس پر ایسے حاسدین، جنہوں نےکبھی تھانے تک کا منہ نہیں دیکھا، عجیب عجیب باتیں پھیلاتے رہتے ہیں۔

الطاف بھائی پاکستان سے شدید محبت کرتے ہیں۔ آپ کی اہلیہ جب تک آپ کی اہلیہ رہیں، پاکستان کو اپنی سوکن سمجھتی رہیں۔ مگر ایک عورت اپنی سوکن کب تک برداشت کرتی ہے۔ چنانچہ الطاف بھائی آج کل ایک بار پھر سے سنگل ہیں۔ برطانوی حسینائیں ہر روز آپ کی رہائش گاہ کے سامنے اس امید پر دھرنا دیتی ہیں شائد ان کے نام کے ساتھ الطاف بھائی کا نام جڑ جائے۔ مگر بھائی اپنا تن من دھن پاکستان کے لیے وقف کر چکے۔ عنقریب ان کی جماعت بھی ایم کیو ایم وقف پاکستان کے نام سے جانی اور پہچانی جائے گی۔

دنیا الطاف بھائی کو قائد تحریک کی حیثیت سے جانتی ہے ۔ عام لوگوں کی نظر میں وہ سیاستدان ہیں۔ بہت کم لوگوں کو خبر ہے کہ بھائی پہنچے ہوئے ولی اللہ بھی ہیں۔ آپ مستجاب الدعوٰۃ ہیں۔ ادھر آپ کے لب ہلے، اُدھر دعا قبول ہوئی۔ پارٹی کے سینئر ممبران اس راز سے آگاہ ہیں۔ مگر بھائی نہیں چاہتے کہ یہ راز عام ہو۔ یہی وجہ ہےکہ پارٹی کے اندر ان کا کہا ہوا ہر لفظ ایک آسمانی حکم کا درجہ رکھتا ہے۔ اسی لیے تو آپ کی پوجا کی جاتی ہے۔ اگر پارٹی کے اراکین کی نظر میں آپ ایک مرشدِ کامل ہیں تو ہندو ممبران آپ کو بھگوان کا اوتار مانتے ہیں۔

اسی طرح بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ ایم کیو ایم بھائی کی جیتی جاگتی کرامت ہے ۔ بھائی کی وجہ سے ہی پارٹی کی سانسوں کی مالا قائم ہے۔ الطاف بھائی ہی پارٹی کی تمام ضروریات کے واحد کفیل ہیں۔ پارٹی کو جب بھی مالی مشکلا ت پیش آتی ہیں، بھائی کے حضور درخواست پیش کر دی جاتی ہے ۔ بھائی مصلے پر بیٹھ جاتےہیں۔ اپنے ہاتھ اٹھا لیتےہیں۔ آسمان سے پاونڈز برسنے لگتے ہیں۔ بھائی یہ نوٹ اکٹھے کرتے ہیں اور پارٹ انتظامیہ کی خدمت میں پیش کر دیتے ہیں۔ یوں پارٹی دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہی ہے۔

اب خدا لگتی کہیے گا کہ ایک ایسے عظیم قائد اور عظیم پارٹی پر شک کرنا کیا زیادتی نہ ہو گی۔ آپ خود ہی سوچیے کہ دودھ سے دھلی اس پارٹی پر یہ شک کرنا کہ یہ 290 انسانوں کو زندہ جلانے کے شیطانی عمل میں ملوث ہو گی، کسی گناہِ کبیرہ سے کم ہے کیا۔ یہ تو ممکن ہے کہ الطاف بھائی نے اپنے کسی مرید کو 20 کروڑ روپے دے کر یہ کہا ہو کہ جا بچہ اس غریب فیکٹری مالک کی مدد کر کے آ جا۔ مگر یہ سوچنا کہ ایم کیو ایم کے کسی ممبر نے صرف 20 کروڑ کا بھتہ مانگا ہو گا، پاپ ہے، بہت بڑا پاپ۔ الطاف بھائی تو بڑے دیالو ہیں۔ وہ تو معاف کر دیں گے۔ مگر وہ پوتر طاقتیں جو ان پر سایہ کیے رہتی ہیں، وہ تو کبھی معاف نہ کریں گی۔ الطاف بھائی نے اینکرز پرسنز کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اسی طرف اشارہ کیا تھا، مگر شر پسند اینکر پرسنز اور صحافیوں نے بات کا بتنگڑ بنا دیا۔

الطاف بھائی اور ایم کیو ایم کے فیوض و برکات پر بات کرنے کے لیے کتابیں بھی کم پڑ جاتی ہیں۔ یہ تو صرف ایک کالم تھا۔ کالم کی گنجائش بہر حال محدود ہوتی ہے۔ قبلہ الطاف بھائی اور رابطہ کمیٹی سے گذارش ہے کہ گرم توے سے نیچے اتر آئیں۔ ہمارے لوگ زیادہ پڑھے لکھے تو ہیں نہیں۔ آپ جتنا بولیں گے، اتنے ہی مشکوک ہوں گے۔ الطاف بھائی سے ذاتی گذارش ہے کہ مصلے پر بیٹھ جائیں اور اللہ اللہ کریں۔ سینٹ کے انتخابات کے بعد سب ٹھیک ہو جائے گا۔ رہا 290 انسانوں کے زندہ جلنے کا معاملہ، تو اس کا انصاف تو اوپر والا ہی کرے گا۔ زمینی طاقتیں تو صرف سودا بازی کرتی ہیں۔

https://www.facebook.com/q.m.chaudhry

No comments:

Post a Comment